بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں کہانیاں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ خاص طور پر وہ کہانیاں جو اخلاقی سبق دیتی ہوں، بچوں کو صحیح اور غلط کی پہچان سکھاتی ہیں۔ آج کی کہانی "سچائی کا انعام" ایک ایسے بچے کی ہے جو مشکل وقت میں بھی سچ بولنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ سچ بولنا ہمیشہ فائدہ مند ہوتا ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
کہانی: سچائی کا انعام
گاؤں ہریالی سے بھرا ہوا، خاموش اور قدرتی حسن سے مالا مال تھا۔ اسی گاؤں میں ایک پیارا سا بچہ "زید" اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ زید نہ صرف پڑھائی میں اچھا تھا بلکہ اخلاق میں بھی سب سے آگے تھا۔ اس کے استاد، والدین اور ہمسائے سب اس سے بہت خوش تھے۔
زید کو کہانیاں سننے اور نئی نئی چیزیں سیکھنے کا شوق تھا۔ اس کا سب سے اچھا دوست "دانش" تھا، جو اکثر اسکول کے بعد اس کے ساتھ بیٹھ کر سبق دہراتا اور چھوٹے موٹے کھیل کھیلتا۔
ایک دن اسکول میں اعلان ہوا کہ اگلے دن "شو اینڈ ٹیل" کا مقابلہ ہوگا۔ بچوں کو کوئی خاص چیز گھر سے لا کر اس کی کہانی کلاس میں سنانی تھی۔
زید بہت پرجوش ہوا۔ اس نے فوراً سوچا:
"میں ابو کی پرانی گھڑی لے جاؤں گا جو ان کے دادا نے انہیں دی تھی۔ یہ بہت خاص ہے۔"
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ گھڑی الماری میں بند رہتی تھی اور ابو نے سختی سے منع کیا تھا کہ اسے کوئی ہاتھ نہ لگائے۔
زید نے تھوڑا سوچا، پھر دل میں کہا:
"میں صرف ایک دن کے لیے لے جا رہا ہوں، واپس لا کر اسی جگہ رکھ دوں گا۔ ابو کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔"
⌚ گھڑی، کلاس، اور ایک حادثہ
صبح زید نے چھپ کر گھڑی نکالی، بیگ میں رکھی اور خوشی خوشی اسکول چلا گیا۔ کلاس میں سب بچے اپنی چیزیں دکھا رہے تھے: کوئی کھلونا، کوئی تصویر، کوئی ٹرافی۔ زید کی باری آئی تو اس نے بڑی فخر سے گھڑی نکالی اور کہا:
"یہ میرے دادا کی گھڑی ہے، جو میرے ابو کو ملی، اور آج میں آپ کو دکھا رہا ہوں۔ یہ میرے لیے سب سے قیمتی چیز ہے۔"
سب بچوں نے تالیاں بجائیں۔ استاد صاحب نے بھی تعریف کی۔ زید بہت خوش تھا۔
لیکن بریک کے وقت، جب سب بچے باہر کھیلنے گئے، زید کا بیگ کھلا رہ گیا۔ جب واپس آیا تو گھڑی غائب تھی۔ اس کا دل ڈوب گیا۔ وہ گھبرا گیا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اس نے ہر جگہ دیکھا، کلاس، راہداری، میدان — مگر گھڑی نہ ملی۔
😔 جھوٹ کا وسوسہ
گھر جاتے وقت اس کے دل میں عجیب سی جنگ چل رہی تھی۔
"ابو کو کیا بتاؤں؟ اگر سچ بولوں گا تو بہت ڈانٹ پڑے گی۔ شاید وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں۔ شاید وہ مجھ پر دوبارہ کبھی بھروسہ نہ کریں۔"
پھر اس کے دل نے کہا:
"نہیں زید، جھوٹ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تم نے غلطی کی، مگر سچائی سے تم خود کو آزاد کر سکتے ہو۔"
🏡 سچ کا سامنا
شام کو زید نے اپنے ابو کو آہستہ سے بلایا۔ وہ سہما ہوا تھا، آواز کانپ رہی تھی۔
اس نے کہا:
"ابو... مجھے معاف کر دیں۔ میں نے بغیر اجازت آپ کی گھڑی لے لی۔ اسکول میں سب کو دکھانے کے لیے... لیکن وہ کھو گئی۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے ڈانٹیں، مگر میں نے سچ بولنے کا فیصلہ کیا ہے۔"
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ زید کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔
ابو نے کچھ لمحے زید کو دیکھا، پھر آہستہ سے آگے بڑھے اور اسے سینے سے لگا لیا۔
"بیٹا، گھڑی تو چلی گئی، مگر تم نے جو سچ بولا ہے، وہ میرے لیے پوری دنیا سے زیادہ قیمتی ہے۔ تم نے آج میرے دل میں اپنا مقام اور بھی بلند کر لیا ہے۔"
سچائی کا انعام
اگلے دن اسکول میں زید نے استاد صاحب کو بھی سچ بتا دیا۔ استاد حیران ہوئے، لیکن خوشی سے مسکرائے۔
"زید، تم نے ہار نہیں مانی۔ تم نے سچ کا ساتھ دیا، یہی اصل کامیابی ہے۔"
چند دن بعد اسکول میں سالانہ "ایمانداری ایوارڈ" کا اعلان ہوا — اور وہ زید کو دیا گیا۔
اس دن زید نے سیکھا کہ سچ بولنا وقتی طور پر مشکل لگتا ہے، مگر اس کا پھل دیرپا، عزت دار اور اطمینان بخش ہوتا ہے۔
📚 سبق:
-
سچ بولنے والا دلیر ہوتا ہے۔
-
اگر غلطی ہو جائے تو سچائی ہی نجات کا راستہ ہے۔
-
والدین اور اساتذہ ہمیشہ ایمانداری کی قدر کرتے ہیں۔
-
جھوٹ وقتی فائدہ دے سکتا ہے، مگر سچ ہمیشہ دل جیتتا ہے۔
والدین کے لیے پیغام:
اگر آپ کا بچہ کبھی سچ بولے تو اُس کی تعریف کریں، چاہے وہ غلطی بتا رہا ہو۔ ایسا رویہ بچوں میں اعتماد، ایمانداری اور اچھا کردار پیدا کرتا ہے۔ ڈانٹنے سے بچے سچ چھپانا سیکھتے ہیں، تعریف سے سچ بولنے کا حوصلہ۔
نتیجہ:
سچ بولنا ایک طاقت ہے۔ زید کی کہانی ہم سب کو سکھاتی ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں، اگر ہم سچ بولنے کی ہمت رکھیں تو ہم نہ صرف اپنے دل کو سکون دیتے ہیں بلکہ دوسروں کے دل بھی جیت لیتے ہیں۔ یاد رکھیں:
"ہمیشہ سچ بولنا چاہیے، چاہے حالات کتنے بھی مشکل ہوں!"
اگر آپ کو سبق آموز کہانیاں پسند ہیں، تو یہ اردو کہانی بھی ضرور پڑھیں:
ننھے حسن اور چالاک بندر – اچھائی اور برائی کی جنگ