جون ایلیا، ایک ایسا نام جس نے اردو شاعری میں اپنی الگ پہچان بنائی۔ وہ صرف شاعر نہیں تھے، بلکہ ایک چلتا پھرتا فلسفہ تھے۔ ان کی شاعری میں محبت ہے، تنہائی ہے، بغاوت ہے، مایوسی ہے، اور سب سے بڑھ کر ایک گہری سچائی ہے جو ہر دل میں اتر جاتی ہے۔ وہ روایتی لفظوں میں نہیں بولتے، بلکہ زخمی دل کی چیخ کی زبان میں لکھتے ہیں۔
جون ایلیا کی شاعری کا انداز
جون ایلیا کی شاعری عام شاعری نہیں۔ ان کے اشعار میں الفاظ نہیں، جذبے بولتے ہیں۔ ان کے ہاں محبت ایک بے قراری ہے، تنہائی ایک مستقل عادت ہے، جون ایلیا کی نظر میں زندگی محض سانس لینے کا عمل نہیں، بلکہ ایک تھکا دینے والا دکھ ہے جو دل کے در و دیوار ہلا دیتا ہے۔"
ان کی شاعری میں اکثر سوال ہوتے ہیں، شکوے ہوتے ہیں، اور خود کلامی کا گہرا رنگ ہوتا ہے۔ وہ اکثر خود سے مخاطب ہوتے ہیں، گویا دنیا سے کٹ چکے ہوں۔
جون ایلیا کے مشہور اشعار (محبت، تنہائی، بغاوت)
"کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
کسی اور کی چاہت لگتی ہے"
— جون ایلیا
محبت کا کرب اور بےوفائی کا زہر"اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے"
— جون ایلیا
سماجی بغاوت اور نفرت کی جھلک"زندگی کا لطف آ گیا تم سے بچھڑ کے
تم یاد آئے، زندگی رو پڑی"
محبت کی یاد اور دل کی اداسی
"میں بھی کچھ عجیب سا ہوں، حد درجے عجیب
خود کو برباد کر لیا، پر افسوس تک نہیں"
خود فریبی اور اندرونی بغاوت
’’بہت نزدیک آتے جا رہے ہو‘‘
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا؟
خوف، محبت، اور تنہائی کا امتزاج
❝کیا کہا عشق دائمی ہوگا؟❞
ہاں! مگر زندگی کہاں دائمی ہے؟
محبت اور فنا کا فلسفہ
❝وہ جو میں نے کہا نہیں، جو تم نے سنا نہیں❞
وہ جو دل میں چھپ گیا، کیا وہ بھی عشق ہے؟
خاموش جذبات کی پہچان
❝ایک ہی شخص تھا جہاں میں، کیا؟❞
(جون ایلیا)
میری پسندیدہ غـزل
''عمر گزرے گی امتحان میں کیا''
''داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا''
''مری ہر بات بےاثر ہی رہی''
''نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا''
''مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں''
''یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا''
''خود کو دنیا سے مختلف جانا''
''آگیا تھا مرے گمان میں کیا''
''ہے نسیمِ بہار گرد آلود''
''خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا''
''یوں جو تکتا ہے آسمان کو تُو''
''کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا''
''یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا''
''ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا''
(جون ایلیا)
جون ایلیا کی مکمل غزلیں
1. بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے؟
''بے دلی، کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے؟''
''صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے''
''رقص ہے، رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں''
''سب بچھڑ جائیں گے، سب بکھر جائیں گے''
''یہ خراباتیانِ خرد باختہ''
''صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے''
''کتنی دلکش ہو تم، کتنا دلجو ہوں میں''
''کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے''
''ہے غنیمت کہ اسرارِ ہستی سے ہم''
''بے خبر آئے ہیں، بے خبر جائیں گے''
(جون ایلیا)
2. اب کہ مارا گیا ہوں میں شاید
''اب کہ مارا گیا ہوں میں شاید''
''زندگی کچھ عجیب لگتی ہے''
''جو نہیں تھے، وہی نظر آئے''
''جو تھے، وہ قریب لگتی ہے''
''بات وہ جو نہ ہو سکی ہم سے''
''آج بھی بے سبب رلاتی ہے''
''جس کو ہم بھولنا بھی چاہتے''
''یاد وہ اور بھی زیادہ آتی ہے''
''میرے ہونے کا اب یقیں ہی نہیں''
''خود کو دیکھوں تو غیر لگتی ہے''
''اب کے مارا گیا ہوں میں شاید''
''زندگی کچھ عجیب لگتی ہے''
(جون ایلیا)
3. حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی
''حالتِ حال کے سبب حالتِ حال ہی گئی''
''شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی''
''تیرا فراق جانِ جانِ عیش تھا کیا میرے لیے''
''یعنی تیرے فراق میں خوب شراب پی گئی''
''تیرے وصال کے لیے، اپنے کمال کے لیے''
''حالتِ دل کہ تھی خراب، اور خراب کی گئی''
''اُس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ''
''عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی''
''ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک''
''بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی''
''بعد بھی تیرے جانِ جان، دل میں رہا عجیب سماں''
''یاد رہی تری یہاں، پھر تری یاد بھی گئی''
(جون ایلیا)
4. غزل: گزراں ہیں، گزرتے رہتے ہیں
گزراں ہیں، گزرتے رہتے ہیں
ہم میاں، جان مرتے رہتے ہیں
ہائے جاناں، وہ نافِ پیالہ ترا
دل میں بس گھونٹ اترتے رہتے ہیں
دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا
سارے جلسے بکھرتے رہتے ہیں
یعنی کیا کچھ بھلا دیا ہم نے
اب تو ہم خود سے ڈرتے رہتے ہیں
ہم سے کیا کیا خدا مکرتا ہے
ہم خدا سے مکرتے رہتے ہیں
ہے عجب اس کا حالِ ہجر کہ ہم
گاہے گاہے سنورتے رہتے ہیں
دل کے سب زخم پیشہ ور ہیں میاں
آن ہا آن بھرتے رہتے ہیں
— جون ایلیا
5. اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
دل کو مارے خیال سا آیا
دل کو اب تک خیال رہتا ہے
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
زندگی کیا ہے، اک تماشا ہے
ہم جو دیکھیں تو اور دکھتا ہے
اب کوئی خواب، کوئی امید نہیں
یہ بھی دن ہیں کہ وقت رکتا ہے
توڑ ڈالے گئے ہیں رشتے سب
اب نہ جانے کون کس کا ہے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
— جون ایلیا
جون ایلیا کی شاعری کا اثر
آج کا نوجوان جون ایلیا کو کیوں پڑھتا ہے؟ کیونکہ وہ دل کی بات کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ زخمی دل کی آواز ہیں۔ جو ٹوٹا ہے، جو بچھڑا ہے، جو تنہا ہے — وہ جون ایلیا کو ضرور پڑھتا ہے۔
ان کی شاعری Instagram captions سے لے کر نوجوانوں کی diary tak ہر جگہ موجود ہے۔ ان کا اسلوب سادہ ہے، مگر اثر گہرا ہے۔
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
— جون ایلیا
جون ایلیا کی شاعری کا اثر صرف الفاظ تک محدود نہیں — یہ روح میں اتر جاتا ہے، جیسے کوئی پرانا زخم دوبارہ ہرا ہو گیا ہو۔ ان کے اشعار ہر اُس انسان کے دل کی آواز ہیں جو کبھی ٹوٹا، کبھی تنہا رہا، یا کبھی خود کو سمجھنے کی کوشش میں بکھرتا چلا گیا۔
ہم کو یارو نے یاد بھی نہ رکھا
'جون' یاروں کے یار تھے ہم تو
(جون ایلیا)
جون ایلیا کی باتیں کسی رسمی نصیحت یا کتابی جملے نہیں ہوتیں، بلکہ وہ جذبات کی وہ سچائیاں ہوتی ہیں جو ہم اکثر خود سے بھی چھپاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں آج کا نوجوان وہ گمشدہ احساس تلاش کرتا ہے جو زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں دب گیا ہے۔ وہ لفظوں کے ذریعے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں، اور جون ایلیا کا ہر شعر اُن کے لیے ایک مرہم بن جاتا ہے۔
کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو
وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا اب تو
وہ سکون وہاں کی، خدا کی ہیں بخششیں کیا کیا
یہاں یہ غم کی خدا بھی نہیں رہا اب تو
(جون ایلیا)
اختتامیہ
جون ایلیا کی شاعری صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک احساس ہے — ایک ایسا تجربہ جو دل کے نہاں خانوں میں چھپی اداسی، بغاوت، اور ٹوٹے خوابوں کو جگا دیتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی آواز تھے جو ہمیشہ چپ رہے، جنہیں بولنے کا حق نہ ملا، یا جو بولنا نہیں چاہتے تھے۔
ان کی غزلوں میں تنہائی گونجتی ہے، اور ان کے اشعار میں محبت اپنے بکھرے ہوئے چہرے کے ساتھ نظر آتی ہے۔ وہ محبت کو کسی فلمی خواب کی طرح پیش نہیں کرتے — بلکہ حقیقت کے کانٹوں سے زخمی ایک ایسی محبت دکھاتے ہیں جو ہر دل نے کبھی نہ کبھی محسوس ضرور کی ہے۔
وہ جو نہ آنے والا ہے نا
اس سے مجھ کو مطلب تھا
(جون ایلیا)
جون ایلیا کی شاعری ہمیں بتاتی ہے کہ رونا کمزوری نہیں، اور تنہا ہونا کوئی جرم نہیں۔ وہ سکھاتے ہیں کہ جو لوگ بہت ہنستے ہیں، وہی اندر سے سب سے زیادہ ٹوٹے ہوتے ہیں۔ اور شاید اسی لیے آج کا نوجوان، جسے دنیا سمجھنے سے قاصر ہے، جون ایلیا میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔
وہ شاعر جو زندگی سے خفا تھا، جو معاشرے سے بے زار تھا، اور جو ہر لفظ میں ایک چیخ چھپا کر لکھتا تھا — آج اُس کی شاعری لاکھوں دلوں کا سہارا ہے۔
اگر کبھی آپ کو لگے کہ دنیا آپ کو نہیں سمجھتی، تو جون ایلیا کی کوئی غزل کھولیے — شاید اُس میں آپ خود کو پا لیں۔
سوال آپ سے:
آپ کو جون ایلیا کا کون سا شعر یا غزل سب سے زیادہ پسند ہے؟ نیچے کمنٹ میں ضرور بتائیں!
اگر آپ غم، محبت اور احساس کی مزید دل چھو لینے والی شاعری پڑھنا چاہتے ہیں، تو ہمارا یہ مضمون ضرور دیکھیں: