ایک پرانے گاؤں میں علی نام کا ایک نڈر لیکن ضدی لڑکا رہتا تھا۔ علی کو ڈراؤنی کہانیاں سننا بہت پسند تھا، مگر وہ ہمیشہ کہتا
"چڑیلیں صرف کہانیوں میں ہوتی ہیں، اصلی زندگی میں نہیں''!
لیکن گاؤں کے سب بچے ایک جنگل سے بہت ڈرتے تھے جسے "کالا جنگل" کہا جاتا تھا۔ وہاں دن کے وقت بھی اندھیرا رہتا تھا، درختوں کی شاخیں ایسے مڑ چکی تھیں جیسے پنجے ہوں، اور ہر وقت وہاں سے چیخوں جیسی آوازیں آتی تھیں۔
گاؤں کے بزرگ کہتے تھے کہ اس جنگل میں ایک چڑیل رہتی ہے، جس کی آنکھیں لال انگاروں کی طرح جلتی ہیں، اور جس کی آواز سن کر ہی درخت کانپنے لگتے ہیں۔
علی کی ضد
ایک دن علی نے دوستوں سے کہا:
"میں ثابت کروں گا کہ چڑیل کوئی نہیں ہوتی''!
اور شام ڈھلتے ہی، علی نے ایک ٹارچ، ایک جیب میں نمک، اور ایک چھوٹا سا چاقو لے کر جنگل کا رخ کیا۔ جیسے ہی علی جنگل میں داخل ہوا، ہوا ٹھنڈی ہونے لگی، درختوں کی شاخیں آپس میں ٹکرا کر خوفناک آوازیں نکالنے لگیں، اور دور کہیں سے ہنسی کی گونج آئی۔
"کیا یہ میری ٹارچ بند ہو گئی؟''
علی نے حیرت سے دیکھا، ٹارچ خود بخود بند ہو چکی تھی۔ اندھیرے میں علی نے کچھ حرکت محسوس کی۔ اچانک ایک درخت کی اوٹ سے ایک لمبی، ٹیڑھی میڑھی شکل نظر آئی۔ چڑیل!
چڑیل کا ظہور
چڑیل کے کپڑے پھٹے پرانے تھے، اس کے بال زمین پر گھسٹ رہے تھے، اور اس کے ناخن اتنے لمبے تھے جیسے خنجر۔
وہ غرائی
"تم نے میرے جنگل کی خاموشی توڑی ہے... اب تم کبھی واپس نہیں جا پاؤ گے''!
علی نے نمک نکال کر چڑیل کی طرف پھینکا، مگر وہ ہنسنے لگی:
"ہاہاہا! میں عام چڑیل نہیں ہوں، مجھ پر کچھ نہیں چلتا!''
چڑیل نے جادوئی ہاتھ گھمایا اور علی کا سایہ زمین سے الگ کر کے ہوا میں معلق کر دیا۔ علی کی آنکھیں بند ہونے لگیں، اور وہ زمین پر گر پڑا۔
ماں کی دعا اور بچاؤ
اسی وقت گاؤں میں علی کی ماں کو خواب میں علی کی چیخ سنائی دی۔ وہ فوراً بابا خضر کے پاس گئی، جو گاؤں کا روحانی بزرگ تھا۔
بابا خضر نے اسے ایک چراغ دیا اور کہا:
"یہ روشنی صرف سچی ماں کی محبت سے جلتی ہے۔ اس چراغ کو لے کر جنگل جاؤ اور اپنے بیٹے کو آواز دو۔"
ماں جنگل پہنچی، ہر طرف اندھیرا، چیخیں، اور سایے تھے۔ لیکن جیسے ہی ماں نے چراغ جلایا، چمکدار روشنی پھیل گئی اور چڑیل پیچھے ہٹنے لگی۔
ماں نے زور سے پکارا:
"علی! واپس آ جاؤ، میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں!''
علی کے جسم میں حرکت ہوئی۔ چڑیل چیخنے لگی
"نہیں! ماں کی محبت میرے جادو سے بھی زیادہ طاقتور ہے!
چڑیل کی آواز گونجی اور وہ دھواں بن کر فضا میں غائب ہو گئی۔
اختتام
علی نے آنکھیں کھولیں اور ماں کو دیکھا۔ وہ بھاگ کر گلے لگ گیا اور رو کر کہا:
"امی! میں آئندہ کبھی ایسی حماقت نہیں کروں گا!''
گاؤں میں علی کی واپسی پر سب نے شکر ادا کیا، اور علی سب بچوں کو سمجھانے لگا کہ بڑوں کی باتیں مذاق نہیں ہوتیں۔
سبق:
ضد اور بہادری میں فرق ہوتا ہے۔ جو بڑوں کی بات نہ مانے، وہ اکثر پچھتاتا ہے۔ اور سب سے بڑا جادو –ماں کی محبت – ہر اندھیرے کو مٹا سکتی ہے۔
سوال بچوں کے لیے:
اگر آپ علی کی جگہ ہوتے تو کیا جنگل میں جاتے؟ اور اگر چڑیل آپ کے سامنے آتی تو کیا کرتے؟
اگر آپ کو سبق آموز کہانیاں پسند ہیں، تو یہ اردو کہانی بھی ضرور پڑھیں:
Bahoot he achi Kahani hai ..
ReplyDelete