اسلامی تاریخ میں اگر کسی حکمران کی عدل و انصاف پر مبنی حکومت کو سب سے نمایاں مقام حاصل ہے، تو وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت ہے۔ آپ کا دور خلافت نہ صرف فتوحات اسلامی کا روشن باب ہے بلکہ ایک مثالی اسلامی ریاست کی عملی تعبیر بھی ہے۔ ان کی حکومت عدل، مساوات، انصاف، دیانت اور فلاحِ عامہ کا اعلیٰ ترین نمونہ تھی، جو آج بھی دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔
حضرت عمر بن خطاب کا تعارف
خلافت کی ذمہ داری اور اندازِ حکمرانی
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انتقال کے بعد، مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ مقرر کیا۔ آپ نے خلافت کو محض حکومت کا نام نہیں سمجھا بلکہ اُسے ایک امانت جانا، اور خود کو رعایا کا خادم قرار دیا۔
آپ کا قول ہے:
"اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو مجھے خوف ہے کہ اللہ مجھ سے اس کا حساب لے گا۔"
یہ جملہ ان کے عدل اور احساسِ ذمہ داری کو واضح کرتا ہے۔
عدل کا مفہوم حضرت عمرؓ کے نزدیکحضرت عمرؓ کے نزدیک عدل کا مطلب صرف عدالت میں فیصلہ دینا نہیں تھا، بلکہ:
- ہر شخص کو اس کا حق دینا.
- طاقتور کو قانون کے سامنے جھکانا.
- کمزور کو سہارا دینا.
- امیر و غریب کو برابر کا درجہ دینا.
یہی وجہ تھی کہ آپ کے دور میں غیر مسلم بھی مکمل تحفظ اور انصاف کی فضا میں زندگی گزار رہے تھے۔
چند روشن مثالیں حضرت عمرؓ کے عدل کی
1. گورنر کے خلاف کارروائی
2. قبطی نوجوان کا واقعہ
حضرت عمرؓ نے فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی:
- بیت المال کا قیام کیا.
- ہر شہری کے لیے وظیفہ مقرر کیا.
- لاوارث بچوں، بیواؤں، اور بزرگوں کے لیے وظیفے جاری کیے.
- سڑکیں، نہریں، سرائے، اور عدالتیں تعمیر کروائیں.
مذہبی رواداری
حضرت عمرؓ نے دیگر مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی دی۔ ان کے دور میں مسیحی، یہودی، اور دیگر اقلیتیں نہ صرف محفوظ تھیں بلکہ اُن کے مذہبی مقامات کا احترام کیا جاتا تھا۔ جب آپ بیت المقدس پہنچے تو چرچ کے اندر داخل ہونے سے انکار کر دیا تاکہ مسلمان بعد میں اسے مسجد نہ بنائیں۔
عدلیہ کی آزادی
آپ نے قضا (عدلیہ) کو مکمل طور پر آزاد بنایا۔ قاضی صرف قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کرتے تھے، اور خود خلیفہ بھی عدالت کے سامنے جواب دہ تھا۔ ایک موقع پر قاضی نے حضرت عمرؓ کو عام شہری کی طرح عدالت میں بلایا اور آپ بغیر کسی اعتراض کے پیش ہوئے۔
حضرت عمر کی خود احتسابی
آپ ہمیشہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے اور دوسروں کو بھی تنقید کا حق دیتے۔ مسجد نبوی میں آپ اکثر عوام سے فرماتے:
''اگر میں حق سے ہٹ جاؤں تو کیا کرو گے؟''
ایک شخص نے کہا: "ہم اپنی تلواروں سے درست کریں گے۔" حضرت عمرؓ نے خوش ہو کر کہا: "ایسی قوم میں رہ کر خلافت کرنا میرے لیے باعثِ فخر ہے۔"
آج کے حکمرانوں کے لیے سبق
- حضرت عمرؓ کی حکومت میں:
- کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا.
- خلیفہ گلیوں میں گشت کرتا تھا.
- انصاف وقت پر اور سب کے لیے ہوتا تھا.
آج اگر حکمران حضرت عمرؓ کے نقشِ قدم پر چلیں تو ظلم، ناانصافی، کرپشن، اور غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
نتیجہ:
آپ سے سوال:
اگر حضرت عمرؓ آج کے زمانے میں حکمران ہوتے تو آپ کے خیال میں سب سے پہلا قدم وہ کیا اٹھاتے؟
اپنی رائے کمنٹس میں ضرور دیں!
اگر آپ انسانوں کے رویے اور خاموشیوں کے پیچھے چھپی سچائی کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو یہ بھی ضرور پڑھیں: کسی انسان کی اصلیت جاننے کے 8 زبردست عملی طریقے